افریقہ اور عالمگیریت کا موجودہ ماڈل

افریقہ اور عالمگیریت کا موجودہ ماڈل

Sunday, June 6, 2004

ایک پرانی کہاوت ہے کہ ’چڑھی ہوئی لہر تمام کشتیوں کو سنبھالا دے دیتی ہے۔‘ ا گر عالمگیریت کو اس چڑھی ہوئی لہر سے تشبیہ دی جائے تو پھر اس سے مستفیض ہونے والے ممالک میں تیز نشوونما، بہتر معیار زندگی اور ترقی کے نئے مواقع وافر تعداد میں ہونے چاہئیں۔ لیکن افریقہ کے معاملے میں یہ بات بالکل غلط ثابت ہوئی ہے۔ افریقہ کی کشتی میں بہت سے سوراخ ہیں اور وہ ڈوب رہی ہے۔

دنیا کے امیر ممالک افریقہ کو ایک ’مردہ گھوڑے‘ اور ’مفت خور‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ آج افریقہ میں ایڈز، جنگ اور بدعنوانی کا دور دورہ ہے اور وہ ناکامی کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ آ ئیے یہ تجزیہ کریں کہ افریقہ کو عالمگیریت سے متوقع فائدہ کیوں حاصل نہیں ہوا۔

اپنی آزادی کے فوراً بعد انیس سو باسٹھ میں یوگنڈا کی جی ڈی پی (آمدن کے ذرائع اور پیداوار سے سالانہ آمدنی) کی فی کس شرح جنوبی کوریا کے برابر تھی۔ آج کوریا کی جی ڈی پی کی فی کس شرح بیس ہزار امریکی ڈالر ہے اور وہ ایشین ٹائیگرز میں سے ایک ہے جبکہ یوگنڈا ابھی تک ۔۔۔۔ (اس کلب) کا رکن ہے جس کے رکن ممالک میں میں سماجی ڈھانچہ انتہائی خراب اور غربت اور جہالت کی شرح بہت زیادہ ہے۔

افریقہ میں مثل مشہور ہے کہ جنوبی کوریا کی قیادت اپنے ملک کو ترقی پذیر ممالک کی صف سے نکالنے کے بارے میں اتنی پرعزم تھی کہ اس نے جنوبی کورین خواتین کو چھوٹے بال رکھنے پر راضی کر لیا تاکہ ان کے بالوں کی وگوں کو برآمد کیا جا سکے۔ اس کہانی سے جنوبی کوریا کے ہر قیمت پر غربت کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار ہوتا ہے جو افریقہ کی سیاسی قیادت میں مفقود ہے۔

اس کہانی سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر افریقہ ترقی کی دوڑ مییں پیچھے رہ گیا ہے تو اس میں قصور اس کا اپنا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افریقہ جتنی کوشش کر لے، عالمگیریت کے موجودہ ماڈل میں مروجہ قوانین کی موجودگی میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔

اگرچہ افریقہ کے رہنماؤں کو بالکل بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن افریقہ کے مختلف ممالک کے اندر اور انکے درمیان موجود عدم مساوات، ایک بلین عوام پر چھائی غربت اور آپس کی ختم نہ ہونے والی لڑائیوں کی وجہ یہ رہنما نہیں ہو سکتے۔ افریقہ میں اس بگاڑ کے کچھ اور بھی عوامل ہیں۔ یہ وہی عوامل ہیں جن کی وجہ سے دنیا کے چوٹی کے بیس ممالک تمام دنیا کی جی ڈی پی کے چھیاسی فیصد، بیرونی سرمایہ کاری کے ارسٹھ فیصد اور برآمدی منڈیوں کے بیاسی فیصد پر قابض ہیں۔

اگر آپ یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا کے ایک عام شہری سے پوچھیں تو وہ آپ کو عالمگیریت کا مداح نظر آئے گا۔ اس کی وجہ کمپالا میں بین الاقوامی تیل کمپنیوں، بینکس اور سپر مارکیٹس کی موجودگی ہے اور کمپالا کے شہری ان سہولتوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ یوگنڈا کی بیشر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور اس کا دارومدار زراعت پر ہے۔ کافی، کاٹن اور تمباکو کی بین الااقوامی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے وہ کوئی نفع بخش فصل کاشت نہیں کر سکتے۔

کافی کے علاوہ یوگنڈا میں آم اور کیلے جیسے بہت سے موسمی پھل بھی کاشت کیے جاتے ہیں۔ آم کے موسم میں کسان اپنے بہترین پھل سڑکوں کے کنارے ایک ڈالر سے بھی کم فی درجن بیچتے ہیں۔ آم کے درختوں سے نیچے سے گزریں تو باسی آم کی بو ہر طرف پھیلی ہوتی ہے۔ اتنے اعلی درجے کی آم کی پیداوار کی موجودگی میں یوگنڈا کا پھلوں کے شعبے میں تنوع بہت کار آمد ثابت ہو سکتا ہے۔

لیکن جب تک یوگنڈا میں پھلوں کی کاشت میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہوتی، اس وقت تک یوگنڈا عالمگیریت کے فوائد سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں نے اسے ابھی تک اس شعبے کو نظر انداز کیا ہے اور اس کے مقابلے میں موبائل فون، سستی الیکٹرونکس اور بڑی بڑی سپر مارکیٹس کو ترجیح دی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یوگنڈا ابھی تک آم کا جوس مشرق وسطی سے درآمد کرتا ہے۔

معاشی شعبے میں بھی حالات کچھ اتنے اچھے نہیں ہیں۔ یوگنڈا کے سب سے بڑے کمرشیل بینک کو پارلیمنٹ کی احتجاج کے باوجود اور شروع میں کسی بیرونی خریدار کے نہ ملنے کے باوجود افریقہ کے اسٹینڈرڈ بینک گروپ کو بیچ دیا گیا ہے۔ یوگنڈا کا کمرشیل بینک کے پچاس فیصد سے زیادہ کھاتوں کا مالک تھا۔ بینک کے نئے مالکان نے بینک کے شیئرز کا کچھ حصہ یوگنڈا کے نئے اسٹاک ایکسچنج کے لئے مختص کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ یوگنڈا کے عوام وہاں سرمایہ کاری کر سکیں۔

© 2004 Yale Center for the Study of Globalization