امریکہ کیلئےواپسی کاراستہ کھلاہے؟

امریکہ کیلئےواپسی کاراستہ کھلاہے؟

Sunday, August 29, 2004

''کو واڈِس امریکہ'' یعنی امریکہ کہا ں جا رہا ہے؟ یہ سوال ہر ایک کی زبان پر ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو امریکہ کو دنیا میں انسانی آزادی کا علمبردار کہتے تھے اور دوسری طرف وہ تھے جو اسے نو آبادیاتی طاقت سمجھتے تھے جو اسی کا مخالف ہے جس کی بظاہر حفاظت کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

تقریباً تمام امریکی لوگ، بہت سے یورپی اور کافی حد تک باقی دنیا میں لوگ پہلے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے برعکس جو لوگ امریکہ کے بارے میں منفی سوچ رکھتے تھے ان کا تعلق غیرمغربی ممالک اور قدرے کم کا یورپ سے تھا۔ اس بارے میں کوئی اعدادوشمار موجود نہیں تاہم کہا جا سکتا ہے کہ یہ شرح نصف نصف تھی۔

صدر جارج بش کے دور میں اس ترتیب میں کافی بڑی تبدیلی آئی ہے۔اب دنیا کی زیادہ تر آبادی امریکہ کو ایک خطرناک دیو تصور کرتی ہے۔ کچھ اس پر بد خواہی کا الزام لگاتے ہیں، کچھ اسے نادان کہتے ہیں جو جہالت اور گھمنڈ سے بھرا پڑا ہے۔ مگر سب لوگ پریشان اور چوکنا ہیں۔ اور میں نے پہلی دفعہ دیکھا ہے کہ بہت سے امریکی بھی پریشان ہیں اور فکر مند ہیں کہ ان کا ملک اور کیا کرنے والا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ اور ایسے لگتا ہے کہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ امریکہ کہاں جا رہا ہے۔

دنیا کی سیاست میں شاید یہ سوال سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ کم از کم اگلی ایک دہائی کے لیے تو اہم ہے ہی۔ اس کے بعد شاید یہ اپنی اہمیت کھو دے گا یا اس میں کمی آجائے گی۔ امریکہ اب ایک چوراہے پر کھڑا ہے جہاں اب اسے فیصلہ کرنا ہے لیکن اسے اس فیصلے کے زاویوں سے متعلق آگاہی نہیں ہے۔ نومبر میں انتخابات ہیں جن کو میڈیا اب تک ہونے والے انتخابات میں سب سے اہم قرار دے رہا ہے۔ اس میں کچھ مبالغہ آرائی ہے لیکن یہ واضع ہے کہ امریکی عوام دو حصوں میں برابر بنٹی ہوئی ہے۔ ریپبلیکن پارٹی کا انیسں سو چھتیس کے بعد سے دائیں بازو کی طرف کبھی بھی اتنا جھکاؤ نہیں تھا جتنا اب ہے۔ اور ڈیموکریٹک پارٹی کبھی بھی موجودہ صدر کے اتنی خلاف نہیں ہوئی جتنی اب ہے۔ ’کوئی بھی مگر بش نہیں‘ کا نعرہ ہر طرف سنائی دے رہا ہے۔

اندرون ملک صدر بش کے لیے حمایت انتہائی بری طرح گر گئی ہے اور اس کی وجہ ان کی عراق پالیسی اور تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تلاش میں ناکامی، ابو غریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ زیادتی اور وہاں امریکیوں کے خلاف آئے روز حملے ہیں۔ اس کے باوجود جیسا کہ انتخابات کے تمام ماہرین نشاندہی کر رہے ہیں کہ بش کی حمایت میں کمی سے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جان کیری کی حمایت میں اضافہ نہیں ہوا۔اس صورتحال کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں ان میں اہم کیری کی شخصیت ہے۔ میرا ایمان ہے یہ وجہ بہت سادہ ہے۔اگر دل کی بات کر یں تو بہت سے لوگ جو بش کی پالیسیوں سے ناخوش ہیں یہ سوچتے ہیں کہ آیا کیری کی پالیسیاں اس سے فرق ہونگی۔

تو پہلا سوال یہ ہے: کیا بش کی پالیسی کا رخ بدلا گیا ہے چاہے اخلاقی یا سیاسی وجوہات کی بنا پر اور امریکہ دنیا میں اپنی ساکھ دوبارہ بحال کرنے کے لیے کیا متبادل پالیسی اختیار کر سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں امریکہ کی اندرونی پالیسی پر نظر دوڑانی ہوگی۔

اٹھارہ سو پینسٹھ کی خانہ جنگی کے خاتمے سے لے کر انیس سو تینتیس میں فرینکلن روزویلٹ کے انتخاب تک امریکی حکومت پر ریپبلیکن پارٹی کا قبضہ رہا۔ پھر ’گریٹ ڈپریشن‘ یعنی شدید معاشی بحران کے ساتھ ہی نیو ڈیل ڈیموکریٹس حکومت میں آئے اور امریکی سیاست میں دو بنیادی تبدیلیاں متعارف کروائیں: پہلا تو یہ کہ امریکہ کو قانونی طور پر ایک فلاحی مملکت بنا دیا اور اس کو تنہائی پسندی سے نکال کر دنیا کی سیاست میں عملی طور پر مداخلت کی پالیسی پر ڈال دیا۔

علاوہ ازیں انیس سو پینتالیس کے بعد امریکہ ایک کثیر الثقافتی ملک بن گیا۔ کیتھولک اور یہودی سیاسی اور سماجی سیڑھی پر اوپر پہنچ گئے۔ ان کے بعد ہی سیاح فام، لاطینی امریکیوں اور دوسرے گروہوں نے بھی مطالبات شروع کر دیے۔ یہ دوسرا گروہ وہ سماجی قبولیت نہ پاسکا جو سفید فام کیتھولک اور یہودیوں کو ملی مگر اس سے یہ ہوا کہ وہاں، خاص طور، پر فوج میں بدترین امتیازی سلوک ختم ہوگیا۔

ان حالات میں جب ڈیموکریٹک پارٹی سیاست میں حاوی تھی تو ملک میں فلاحی مملکت یعنی ویلفیئر اسٹیٹ، کثیر الثقافت اور مداخلت پسندی کے خلاف ایک معتدل رد عمل ہوا۔ جو لوگ اس تحریک کے پیچھے تھے انہیں اسی میں نجات دکھائی دی کہ ریپبلیکن پارٹی کو غیر مرکزی اور مکمل طور پر دائیں بازو کی پارٹی بنایا جائے۔ ان قدامت پسندوں کو عوام کی حمایت چاہیے تھی اور وہ انہیں دائیں بازو کے عیسائیوں کی صورت میں مل گئی۔ یہ گروہ ان لوگوں پر مشتعمل ہے جو جنسی آزادی اور سفید فام پروٹسٹنٹس کی غلبے کے خاتمے سے ناراض ہیں۔

دائیں بازو کے عیسائی خاص طور پر سماجی مسائل میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے: جن میں استقاط حمل اور ہم جنس پرستی بھی شامل ہے۔ دونوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹ حاصل کیے اور جو ووٹر نہیں تھے ان کو تیار کیا۔ رچرڈ نکسن سے رونالڈ ریگن اور جارج بش تک سماجی مسائل کے حوالے سے ریپبلیکن پارٹی کا جھکاؤ آہستہ آہستہ دائیں جانب ہوتا گیا۔ لیکن انہوں نے فلاحی مملکت یعنی ویلفیئر اسٹیٹ کے خاتمے کی بھی کوشش کی اور ’بین الاقوامیت‘ کی جگہ یک طرفگی لانا چاہی جس کی تہہ بش پر چڑھی ہوئی ہے۔ عراق میں ذلت آمیز شکست کے بعد مرکزیت پسند قوتیں اب رکنے کو کہہ رہی ہیں اور وہ ’بش کے علاوہ کوئی بھی‘ چاہتے ہیں۔

امریکہ اور دنیا کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیری کی فتح کی صورت میں کیا ہوگا؟ کیری اور ان کی پارٹی کے ساتھی ایک بار پھر اس دور کو واپس لانا چاہتے ہیں جو سابق صدر کلنٹن کا تھا۔ وہ اس نقطے کو دوبارہ بحال دیکھنا چاہتے ہیں جہاں سے مرکزیت پسند ڈیموکریٹس دائیں طرف جھک گئے تھے۔ کیا یہ ممکن ہے؟ کیا ایسا امریکی ووٹر کے لیے قابل قبول ہوگا؟ کیا اس طرح کے اقدام سے امریکہ کے پرانے اتحادی جو اب اس سے نالاں ہیں خوش ہوں گے؟

امریکی انتخابات کا چاہے جو بھی نتیجہ نکلے استقاط حمل اور ہم جنس پرستی جیسے مسائل پر لوگوں کے جذبات آسانی سے ٹھنڈے نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ ٹیکسوں میں کمی اور صحت عامہ اور تعلیم پر اخراجات میں اضافے کی وجہ سے امریکہ میں لوگوں کی زندگی میں بہتری لانے اور خسارے پر قابو پانے کی کوششیں خاصی مشکل ثابت ہوں گی۔ اسی طرح امریکہ کی عسکریت پسندی بھی ناپائدار ہوگی اس لیے کہ زیادہ امریکی باشندے فوج میں بھرتی ہونا ناپسند کریں گے۔

انتخابات کے بعد دنیا کے مختلف حصوں سے امریکہ پر دباؤ خاصہ بڑھنے لگے گا۔ عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی، جو اب نظر آ رہی ہے، کو ملک کے اندر اور باہر امریکہ کی شکست سمجھا جائے گا اور اندرونی طور امریکہ پر بہت سے الزامات لگائے جائیں گے۔ یورپ اور مشرقی ایشیا امریکی ڈپلومسی پر کم توجہ دے گا، ڈالر کمزور ہوجائے گا اور ایٹمی پھیلاؤ شاید عام ہو جائے گا۔

اس صورتحال میں کیا امریکہ واپس پلٹ سکتا ہے؟ بے شک۔ لیکن اس کا انحصار پلٹنے کی تعریف پر ہے۔ اب جبکہ امریکی فوجی قوت آخری حد تک استعمال ہورہی ہے اور نقصان اٹھا رہی ہے اور اس کا اندرونی قرضہ انتہائی زیادہ ہے نہ صرف اس کے غلبے کے دن تمام ہو چکے ہیں بلکہ ’تسلط‘ اور ’قیادت‘ بھی اختتام کو پہنچ چکی ہے۔ اس کے پلٹنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ اپنے اندرونی اقدار، سماجی ڈھانچے اور سماجی مفاہمت پر دوبارہ غور کرے۔ اس کے لیے اسے پچھلے تیس سالوں میں ہونے والی معاشی، سماجی اور سیاسی تقسیم پر قابو پانا ہوگا۔ اور یہ بہت حد تک امریکہ کے بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات دوبارہ بحال کرنے کے جائزے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

امریکہ کہاں جا رہا ہے؟ وہ ابھی ایک ملک ہوتے ہوئے اپنی اہمیت دوبار بحال کرنے، اندرونی تقسیم اور بے حثیت ہونے کے درمیان بٹا ہوا ہے۔

© 2004 Yale Center for the Study of Globalization